sure bayyinah with tajweed tajweed ke sath quran

Описание к видео sure bayyinah with tajweed tajweed ke sath quran

#madrasa #mishary #madrsa #tibb #unani #education #quran #tajweed #ayurveda #bilal ایک مفید ولائق مطالعہ تحریر، اساتذہ کرام اسے ضرور پڑھیں۔
طلبہ کی تعلیم وتربیت اور ضرب وتادیب سے متعلق اہم تحریر
اساتذہ نائب رسول ہیں ، اور طلبہ مہمان رسول ہیں ، اب یہ سوچئے کہ اگر یہ طالب علم حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے ، بلکہ انھیں الگ کرکے خود اپنے بارے میں سوچئے کہ ہم اگر طالب علم بن کر رسول اﷲ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے تو ہم آپ کی طرف سے کیا سلوک پاتے ۔ یا ہم آپ سے کیا سلوک چاہتے ، رسول اﷲ ﷺ کا برتاؤ تو اپنے شاگردوں اور صحابۂ کرام کے ساتھ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے ، دنیا جانتی ہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے لوگوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کیا ہے ، حضرت انس جنھوں نے حضور اکرم ﷺکی خدمت دس سال کی عمر سے کی ہے ، نہ جانے کتنا کتنا کام بگڑتا رہا ہوگا ، مگر فرماتے ہیں کہ مارنا تو درکنار حضور اکرم ﷺنے کبھی مجھے ڈانٹا اور گھڑکا تک نہیں، اگر کوئی دانٹتا تو اسے منع کردیتے ، رسول اﷲ انے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا کہ میرے بعد تمہارے پاس دوردراز سے آدمی علم حاصل کرنے آئیں گے ، ان کے سلسلے میں خیر اور بھلائی کی نصیحت کرتاہوں ، اس کو تم قبول کرو، حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ جو شخص اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ، جب اپنے مہمان کا اکرام کرنا ایمان کا تقاضا ہے تو رسول اﷲ ﷺکے مہمانوں کا کس قدر ضروری ہوگا ، ان کو ایذا ہوگی ، تو رسول اﷲ ﷺکو ایذا ہوگی ، اور ان کو راحت ملے گی تو رسول اﷲ ﷺ خوش ہوں گے ۔
اس سلسلے میں اساتذہ سے بہت کوتاہیاں ہوتی ہیں ، اول تو طلبہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، یہ بدترین جرم ہے ، یہ گو بچے ہیں ، نادان ہیں ، ناواقف ہیں ، لیکن دل میں ان کی تحقیر ہرگز نہیں ہونی چاہئے ، یہ جس کام کیلئے آئے ہیں ، اس نے ان کا مرتبہ بڑھا دیا ہے ، رسول اﷲ ﷺنے بچوں کے ساتھ جو شفقت کی ہے ، ہم جو طلبہ کے ساتھ برتاؤ کریں تو وہی شفقت اس میں جھلکنی چاہئے ، ورنہ نیابت چھن جائے گی ، نائب رسول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہی کام کیا جائے جو اصل اور منیب کے منشاء کے مطابق ہو ، ہمارے بزرگوں نے اس کا بڑا اہتمام کیا ہے .
دوسرے یہ کہ طلبہ سے ان کے تحمل سے زیادہ کام نہ لیا جائے ، نہ علم کے سلسلے میں اور نہ خدمت کے سلسلے میں ، ان سے کوئی ایسی فرمائش نہ کی جائے جس کو وہ نہ سمجھ سکیں ، یا سمجھ لیں تو کرنے میں انھیں دشواری ہو ۔ وہ ہمارے غلام نہیں ہیں ، عموماً حضرات اساتذہ کو اس کا اہتمام نہیں ہوتا ، کبھی طلبہ سے ناصاف گفتگو میں کوئی فرمائش کردیتے ہیں ، وہ اسے سمجھ نہیں پاتے ، اور مارے ڈر کے پوچھ نہیں پاتے ، اور بعد میں انھیں زجر وتوبیخ اور بعض اوقات ضرب وتنبیہ کا نشانہ بننا پڑتا ہے ، یاد رکھئے کہ طلبہ کی غلطیوں کو آپ معاف کریں گے تو اﷲ تعالیٰ آپ کی غلطیوں کو معاف کریں گے ، اور اگر آپ ان کی ہر غلطی پر گرفت کریں گے اور سزا دیں گے تواﷲ تعالیٰ بھی ایسا ہی کریں گے ، طلبہ کی تعلیم میں بے حد تحمل ہونا چاہئے ، مارنا بالخصوص نابالغ بچوں کو بہت ناپسندیدہ امر ہے ، بچوں کو زدوکوب سے نہیں پیار ومحبت سے پڑھانا چاہئے ، زدوکوب کا انجام یہ ہوتاہے کہ ان کا دل تعلیم سے اچاٹ ہوجاتا ہے ، نہ جانے کتنے لوگ اپنے اساتذہ کی مارپیٹ کی وجہ تعلیم سے بھاگ نکلے ، اس کا حساب کون دے گا ، میں مطلقاً مارنے کا انکار نہیں کرتا ، لیکن بقدر ضرورت ہواور بے تحاشا مارنے کی ضرورت میں تسلیم نہیں کرتا ، اور میں کیا ، اﷲ اور رسول تسلیم نہیں کرتے، ہم انھیں تعلیم دیتے ہیں ، اور ثواب کی امید رکھتے ہیں، ہم انھیں مارتے ہیں اور بے تحاشا مارتے ہیں ، اور تمام ثواب کو آگ لگا دیتے ہیں ،ا وپر سے ظلم کا گناہ لاد لیتے ہیں ، ان بچوں کی طرف سے کوئی ہم سے سوال کرنے والا نہیں ہے ۔ یاد رکھئے کہ ان کا وکیل اﷲ ہے ، اﷲ کا رسول ہے ، اﷲ کے دربار میں اگر رسول نے دعویٰ دائر کردیا تو بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی ، اگر ہم کو یہ خیال ہوکہ یہ بچے رسول اﷲا کے مہمان عزیز ہیں تو ہمیں ہرگز جرأت نہ ہوگی کہ ان پر ہاتھ اٹھائیں ، اگر کوئی طالب علم ہماری شفقت کے باوجود نہیں پڑھ سکا تو انشاء اﷲ ہم سے اس کا مواخذہ نہ ہوگا ، اور اگر ہماری سختی اور مار پیٹ کی وجہ سے تعلیم سے ہٹ گیا تو دوہرا مواخذہ ہوگا ، ایک بے جا سختی کا ، دوسرے اس کی تعلیم کے خراب ہونے کا ، اور اساتذہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ان کا بے تحاشا پیٹنا کسی ہمدردی کی وجہ سے ہوتا ہے ، عموماً ایسا شفائے غیظ کیلئے ہوتا ہے ، اس چیز سے میں بہت خطرہ محسوس کرتا ہوں ۔

واقعی معاملہ سخت ہے ، یہ بچے اگر کل قیامت کے دن دامن گیر ہوں گے تو جان مشکل میں پڑ جائے گی ، ان کے ساتھ طاقت کا استعمال کم سے کم کرنا چاہئے ، ہاں! روحانی طاقت ، یعنی اخلاق وانسانیت سے زیادہ کام لینا چاہئے ۔
اسی لئے ذرا تفصیل کے ساتھ عرض کردیا اور بعض لوگ تعلیم وتربیت کے حق میں دوسری کوتاہی کرتے ہیں ، وہ یہ کہ طلبہ سبق یاد کریں یا نہ کریں ، نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں ، اخلاق خواہ ان کے کیسے ہی ہوں ، وہ سرے سے روک ٹوک کرتے ہی نہیں ، یہ بھی غلط ہے ، انھیں اپنی اولاد کی طرح پالنا پوسنا چاہئے ، ان سے غلطی ہورہی ہو تو روکنا چاہئے اور باربار چاہئے ، یہ نہیں کہ ایک دو مرتبہ روکا پھر اکتا گئے ، نہیں بلکہ جتنی بار ان سے غلطی ہو اتنی بار ٹوکئے ، مگر نرمی سے اور ایسا بھی نہ ہو کہ بالکل پیچھے پڑجانا محسوس ہو ۔ تربیت کا مسئلہ ذرا نازک ہے ، تاہم روک ٹوک کرتے رہنا چاہئے ، اس سے برائی سمٹتی ہے ، اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو برائی کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے گا۔

Комментарии

Информация по комментариям в разработке