URDU Podcast | Episode 19 | Afsanvi Fiza | Dr. Zakir Faizi | Afsana | Story Mein Dam Nahi Hai

Описание к видео URDU Podcast | Episode 19 | Afsanvi Fiza | Dr. Zakir Faizi | Afsana | Story Mein Dam Nahi Hai

#podcast #urdu #shortstory #delhi
URDU Podcast | Episode 19 | Afsanvi Fiza | Dr. Zakir Faizi | Afsana | Story Mein Dam Nahi Hai | Tute Gamle Ka Pauda

تعارف :
مراد آباد کی پیتل کی چمک سے دہلی کے علمی روشن دریچوں تک، ڈاکٹر ذاکر فیضی کا تعلیمی اور ادبی سفر کسی دلچسپ افسانوی داستان کی طرح ہے۔ ایک طرف جہاں آپ نے پیتل کے کاروبار میں اپنے قدم رکھے، وہیں دوسری طرف آپ کے اندر ایک تخلیقی روشنی پھوٹ پڑی جو انہیں روشن ادبی دنیا کی طرف لے آئی۔ آج ہم آپ کی ابتدائی زندگی، ادبی سفر کا آغاز اور ان کی تخلیقات کے موضوعات پر روشنی ڈالیں گے۔ اس کے علاوہ، ہم ان کے نئے ناول "نئی فیکٹری" کے بارے میں بھی بات کریں گے جو حال ہی میں شائع ہوا ہے اور جس نے ادبی حلقوں میں کافی توجہ حاصل کی ہے۔ آئیے، ہم مل کر ذاکر فیضی کے اس ادبی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور ان کی تخلیقات کے ذریعے ان کی فکشن کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر فیضی کی پیدائش پیتل نگری کے نام سے مشہور اتر پردیش کے شہر جو جگر مرادآبادی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یعنی مراد آباد میں جرار حسین اور رئیسہ خاتون کے یہاں7 جولائی 1978 کو ہوئی۔ آپ کا خاندان بھی اسی پیتل کے کاروبار سے منسلک تھا تو آپ نے بھی ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد پیتل کے کاروباری میدان میں قدم رکھا اور اِسی کام میں مصروف ہو گئے۔ بعد میں یہ احساس دھیرے دھیرے گہرا ہوتا گیا کہ بزنس آپ کا میدان نہیں! اور پھر آپ نے تقریباً 12 سال کے طویل وقفے کے بعد دوبارہ پڑھائی شروع کی۔ آپ کی جستجو اور محنت رنگ لائی اور دہلی کی معارف یونیورسٹی جے این یو یعنی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں آپ کا داخلہ ہوگیا۔ڈاکٹر ذاکر حسین، جنہیں قلمی نام "ذاکر فیضی" سے بھی جانا جاتا ہے، اردو ادب کے ایک نو جوان، روشن خیال اور متحرک ادیب ہیں۔آپ نے بی اے کی تعلیم حیدر آباد کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے حاصل کی۔ آپ نے مہاراجہ ہریش چندر ڈگری کالج، مراد آباد سے ایم اے کیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی تعلیمی سفر یہیں ختم نہیں ہوا۔ انہوں نے نیشنل ایلیجبلٹی ٹیسٹ (NET) پاس کیا اور جے این یو نئی دہلی سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ماس میڈیا میں بھی دلچسپی لی اور اس حوالے سے بھی جے این یو نئی دہلی سے تعلیم حاصل کی۔
ذاکر فیضی اردو کے جانے مانے فکشن نگار ہیں ـ ڈاکٹر ذاکر فیضی کی ادبی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کی متعدد کہانیاں اردو کے معتبر رسائل میں شائع ہو چکی ہیں اور حالیہ آپ کا پہلا ناول "نئی فیکٹری" منظر عام پر آ کر خوب داد و تحسین وصول کر رہا ہے ـ ریڈیو آکاشوانی دہلی اور رامپور پر آپ کی دو درجن سے زائد کہانیاں نشر کی گئیں ـ آپ کی اب تک دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ایک افسانوی مجموعہ "نیا حمام" اور ایک ناول "نئی فیکٹری" ہے ـ مزید دو کتابیں منتظر اشاعت ہیں ـ آپ کی ایک کہانی "ٹوٹے گملے کا پودا" پاکستان سے شائع ہونے والے افسانوی انتخاب "سرخاب" میں بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ، آپ کے تقریباً ایک درجن تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی اردو کے معتبر رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ موصوف کی تخلیقات و تحریریں آجکل، ایوان اردو، زبان و ادب، اردو دنیا، شاعر ،چہار سو، جیسے ادب کے معتبر رسائل و جرائد میں پابندی سے شایع ہوتے ہیں ـ ڈاکٹر ذاکر فیضی کی تحریریں سماجی مسائل، انسانی رشتوں اور نفسیاتی گہرائیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کی کہانیاں نہ صرف پڑھنے والوں کو تفریح فراہم کرتی ہیں بلکہ انہیں سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ آپ نہ صرف ایک ادیب بلکہ ایک استاد، محقق اور سماجی کارکن بھی ہیں۔ آپ نے اردو ادب کے فروغ کے لیے بے پناہ خدمات انجام دی ہیں۔ آپ کی تحریریں نہ صرف ان کی انفرادیت بلکہ اردو ادب کی وسعت کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ گزشتہ 15 برسوں سے آپ دہلی میں ہی مقیم ہیں اور یہیں پر درس و تدریس کے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
آپ کا تخلیقی سفر کا آغاز قدرے مختلف اور دلچسپ ہے۔ جب آپ کی عمر 9 سال تھی اور آپ چوتھی یا پانچویں جماعت کے طالب علم تھے تب اس زمانے میں رام پور سے بچوں کا رسالہ نور شائع ہوتا تھا جس کے سرورق پر لکھا ہوتا نو عمر بچوں کا ڈائجسٹ! نہ جانے کیسے لیکن آپ کو یہ گمان ہوا کہ نو عمر سے مراد یہاں 9 سال کے بچے ہیں اور اس میں لکھنے اور شائع ہونے والے بھی 9 سال کے ہوتے ہیں۔ تب آپ نے اپنی پہلی کہانی لکھی اور کہانی ماہنامہ نور کو بھیج دی لیکن اس کچی عمر میں لکھی گئی یہ کپی پکی کہانی چھپ نہ سکی۔
لیکن جب آپ ٹین ایج میں داخل ہوئے تو پھر آپ نے دوبارہ کہانیاں لکھنی شروع کی اور آپ کی پہلی کہانی 1986 میں ماہنامہ ماہِ رخ میں شائع ہوئی۔ اس بعد رک رک کر اور تھم تھم کر لکھنے لگے 1992 میں آپ کی کہانی آج کل میں شائع ہوئی ساتھ ہی آپ کی کہانی مخمور سعیدی صاحب نے ایوان اردو میں شائع کی۔ آپ نے 1986 سے 1992 تک کی اپنی تمام تخلیقات کو ضائع کر دی۔ آپ کا پہلا مجموعہ 2020 میں شائع ہوا جس میں آپ کی تین دہائیوں کی تقریبا 32 کہانیاں شامل ہیں۔ آپ نے سینتیس اڑتیس برسوں میں صرف 32 کہانیاں ہی لکھی۔ دراصل آپ ہمیشہ نئے موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں اور ایک بڑی دلچسپ وجہ یہ بھی ہے کہ آپ 2009 میں دہلی آئے اور آپ کا داخلہ ایم فل میں 2009 میں ہی ہوا ۔ اس سے قبل جب آپ دہلی کے کسی بھی اچھے رسائل میں تخلیقات بھیجتے تو وہ شائع ہو جاتی لیکن 2009 میں جب آپ کا پتہ جے این یو ہوا تو آپ کی کہانیاں شائع ہونی بند ہو گئی۔ جس کے سبب بھی آپ کے ادبی سفر میں خلل واقع ہوا۔
افسانوی مجموعہ نيا حمام کے لیے اردو اکادمی لکھنؤ کی جانب سےاور ناول نئی فیکٹری کے لیے بندھتو سمان ، دہلی کی جانب سے آپ کو انعام و اعزاز نوازا جا چکا ہے۔

Комментарии

Информация по комментариям в разработке