An Evening With Akhtar Usman : “Meet a Writer Over a Cup of Tea”

Описание к видео An Evening With Akhtar Usman : “Meet a Writer Over a Cup of Tea”

ISLAMABAD: Poet Iftikhar Arif on Tuesday said that Akhtar Usman was a great poet and had earned a good name in lamentation.
He was speaking at an event: “Meet a writer over a cup of tea” at Pakistan Academy of Letters.
A number of writers and literary figures participated in the event.
He said that Akhtar’s poetry showed the quality of creativity and a number of his poems touched people’s heart.
Akhtar Usman said that he was fond of classical poetry and literature.
“Even now-a-days I prefer to read Mir, Ghalib, Bedal, Khayam and Anees. I was born on April 4, 1969 in Islamabad and spent my childhood in Rawalpindi,” he said.
He said while he was a student of Intermediate, in 1985, Dr Ehsan Akbar guided him and took him to Halqa-i-Arbab-i-Zoke. He said later he became Secretary General of the Halqa.
“I got government job but got retirement on medical grounds in 1997. After that I started writing for different newspapers and became editorial in-charge,” he said.
In the end he recited his poems.
تقریب ’’اہل قلم سے ملیے‘‘کے تحت معروف شاعروادیب اختر عثمان کے ساتھ ملاقات
اسلام آباد (میڈیا ٹاک)اختر عثمان غزل، نظم اور خاص کر مرثیہ کے حوالے سے ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہارافتخارعارف نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب ’’اہل قلم سے ملیے‘‘ میں کیا۔وہ اس تقریب کی صدارت کر رہے تھے۔ممتازادیبوں نے پروگرام میں شرکت کی اوراختر عثمان سے ان کی فنی زندگی اور شخصیت کے حوالے سے گفتگو اور سوالات کیے۔ڈاکٹر راشد حمید، ڈائریکٹر جنرل اکادمی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اختر عثمان نے کہا کہ بنیادی طور پر کلاسیکل شعرو ادب کا دلدادہ ہوں اور جدت پسندی سے کم ہی سروکار ہے۔ آج بھی میر، غالب، بیدل حافظ ، خیام اور انیس کو شوق سے پڑھتا ہوں اور اپنے معتبر شعراء سے ذہنی وابستگی رکھتا ہوں۔اختر عثمان نے کہا کہ میں 04اپریل1969 کو اسلام آباد میں پیدا ہوا، بچپن راولپنڈی میں گزاری ، سینٹ پال کیمبرج سکول سے میٹرک اور سیٹلائٹ ٹاؤن کالج ،راولپنڈی سے گریجویشن کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1985ء میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا تو احسان اکبر نے رہنمائی کی وہ حلقہ ارباب ذوق لے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی کا سیکر ٹری جنرل بن گیا ۔ کم سن سیکر ٹری جنرل تھا۔ F.Aکے بعد شناختی کارڈ کے دفتر میں ملازمت کی ۔ 1997 میں میڈیکل گراونڈ پر میں ریٹائرڈ ہوا، مختلف اخبارات میں کام کیا اور ایڈیٹوریل انچارج بنا۔ ضیاء الدین نے ڈان اخبار کے لیے کالم لکھنے پر آمادہ کیا۔ ڈیلی ڈان،ڈیلی ابزرواور ٹیلی گراف میں کالم لکھے ۔ صحیح معنو ں میں 1985سے اُردو شعرو ادب پر کام شروع کیا۔ 1993ء میں شادی ہوئی ، دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ادبی سفر میں جن لوگوں سے متاثر ہوا اور ان سے سیکھا اُن میں مظفر علی سید، ضیاء جالندھری ، افتخار عارف شامل ہیں جبکہ ڈاکٹر احسان اکبر اولین استاد ہیں۔افتخار عارف نے کہا کہ زبان پر قدرت اور دسترس ہی اچھی شاعری کیلئے ضروری نہیں بلکہ دل میں خاک اُڑانابھی ضروری ہے اور یہی سب کچھ اختر عثمان کی شاعری میں موجود ہے، اختر عثمان کی شاعری تخلیقی سطح پر ہمارے سامنے ہے۔ ’’تراش‘‘ جو ایک طویل نظم اور ایک خوبصورت اکائی کی صورت ہے جو بلاشبہ قابل ستائش ہے۔ ڈاکٹر راشد حمید، ڈائریکٹر جنرل اکادمی نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے پروگرام ’’ میٹ اے رائٹر اوور اے کپ آف ٹی ‘‘ سلسلے کی اڑتیسویں تقریب شاعر وادیب اختر عثمان کے اعزاز میں منعقد ہورہی ہے۔اکادمی آئندہ بھی ادبیوں اوردانشوروں کے ساتھ اس طر ح کی ملاقات کا اہتمام کرتی رہے گی۔انوار فطرت ، جہانگیر عمران، ارشد محمود، محبوب ظفر، رحمان حفیظ، حسن عباس رضا، سید جاوید رضا، منظر نقوی،صلاح الدین دوریش، روش ندیم، اور علی اکبر عباس نے گفتگو اور سوالات کیے۔آخر میں اختر عثمان نے کلام سنایا

Комментарии

Информация по комментариям в разработке