Mochi Gate Lahore I Mystery of Laal Khoo I Pakistan's Most Famous Political Rally Spot I Gilani Logs

Описание к видео Mochi Gate Lahore I Mystery of Laal Khoo I Pakistan's Most Famous Political Rally Spot I Gilani Logs

#mochi_gate #lahore #lal_khoo
Mochi Gate Lahore I Mystery of Laal Khoo I Pakistan's Most Famous Political Rally Spot I Gilani Logs

Videography: Muhammad Tanzeem Baath

موچی دروازہ صوبیدار موتی رام کے نام سے منسوب ہے جوملک بادشاہ جلال الدین مداد اکبر کے قریبی وبااعتماد ساتھیوں میں سے تھا۔ صوبیدار موتی رام تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر مامور رہا، لہٰذا مدت العمر کی ملازمت کے سبب سے اس دروازے نے بھی موتی کے ساتھ اپنی پوری نسبت پیدا کر لی اور ہمیشہ کے لیے موتی بن گیا۔ مورخین اس بارے میں کہتے ہیں کہ مغلوں کے عہد کا جب خاتمہ ہوا اور سکھوں نے راج قائم کر لیا تو انھوں نے اس دروازے میں مورچیاں قائم کیں، یوں اس کا نام مورچی دروازہ پڑ گیا جو آہستہ آہستہ مورچی سے موچی ہو گیا۔ اس دروازے کے مشرقی دالان میں زمانۂ سلف کی ایک چھوٹی سی پختہ قبر بنی ہوئی ہے۔ مشہور ہے کہ یہاں کسی شہید کا سر دفن ہے۔ انگریزوں کے دور میں یہ دروازہ گرا دیا گیا تھا جسے بعد میں تعمیر نہیں کیا گیا۔ دروازے کے ساتھ لاہور کی وہ تاریخی جلسہ گاہ بھی ہے جسے پاکستان کا 'ہائیڈپارک' بھی کہتے ہیں، کیونکہ لاہور میں جنم لینے والی تمام تحریکوں اور جلسوں کی ابتدا یہیں سے ہوئی۔ موچی دروازے کے اندر میٹھی گولیاں اور ٹافی بازار بھی ہے، دروازے کے دونوں جانب مساجد ہیں لیکن دروازے کی عمارت موجودنںی ۔
موچی دروازے کے اردگرد مختلف محلے اور گلیاں ہیں جن میں محلہ تیرہ گراں ، محلہ کماں گراں، محلہ لٹھ ماراں، محلہ چابک سواراں، محلہ بندوق سازاں اور حماماں والی گلی قابل ذکر ہیں۔ یہ محلے اور گلیاں بھی مغلیہ عہد کی یا د دلاتے ہیں کیونکہ انھوں نے یہاں پر اپنی ضرورت کے مطابق افراد کو آباد کیا تھاجو سلطنت کے دست وبازو بننے اور اسے کمک پہنچانے میں مدد دیتے تھے۔
موچی دروازے کے ساتھ ہی چند ایکڑ رقبے پر محیط موچی باغ ہے جو اس علاقے کی اصل وجہ شہرت ہے ۔ اس باغ کے دو حصے ہیں ایک میں تو پارک بنا دیا گیا ہے جبکہ دوسرا حصہ اسٹیڈیم کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے جو سڑک سے پانچ ، چھ فٹ گہرا ہے۔باغ کے نشیب میں ہونے کی وجہ سڑک کا باربارتعمیر کیاجانا ہے، یوں وہ موچی باغ سے بلند ہوتی چلی گئی ، اس باغ کے بالکل سامنے سرکلر روڈ کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ٹھنڈی کھوئی والی مسجد ہے ، وہاں سے شاہ عالمی کی طرف بڑھیں تو تھوڑا آگے باغ والی مسجد ہے وہ بھی سرکلر روڈ کو دوحصوں میں تقسیم کر رہی ہے ، اس سے صرف چند گز کے فاصلے پر مشہور تاریخی مسجد شب بھر ہے، گویا صرف 200 گز کے اندر تین مسجدیں موجود ہیں ۔
اب بھی اگر کوئی شخص موچی باغ کے تاریخی میدان میں قدم دھرے تو چشم تصور اسے تحریک آزادی کے اس دور میں کھینچ کر لے جاتی ہے جب علامہ اقبال جیسے عظیم مفکرین نے اپنے افکار سے عوام کے دلوں کو گرمایا تھا ،عظیم رہنما قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے تیار کیا تھا، ان کے قدموں کی دھمک آج بھی وہاں سنائی دیتی ہے۔ اپنے قائدین کے افکارسننے کے لئے چند ایکڑ جگہ میں ہزاروں افراد یوں سماجاتے تھے جیسے کسی برتن میں گندم کے دانے اکٹھے کئے گئے ہوں ، تب موچی باغ کے ارد گرد کی سڑکیں اور گلیاں بھی انسانوں سے بھری نظر آتی تھیں، جوش وجذبے سے بھرے لوگوں کے نعروں سے زمین و آسمان دہل جاتے تھے۔
ان کا یہ جوش و جذبہ برصغیر پر قابض انگریزوں کے اقتدار کو ہلانے کے لئے کافی تھا۔ اس کے علاوہ جواہر لال نہرو،خان عبدالغفار خان ، حسین شہید سہروردی، لیاقت علی خان ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان، غلام مصطفی کھر، نواز شریف، شہباز شریف، قاضی حسین احمد اور دیگر اہم مشاہیر اور سیاستدانوں نے موچی باغ میں عوام سے خطاب کیا۔
جنرل ضیا الحق نے اپنے دور حکومت میں وہاں جلسوں پر پابندی لگا دی تھی اور سیاستدانوں کو جائے امان ملنا مشکل ہو گئی تھی ، مگر ’’چلو چلو موچی دروازہ چلو ‘‘کے نعرے سیاسی کارکنوں کو ہر حال میں اپنی پارٹیوں کے جلسوں میں شرکت کے لئے متحرک رکھتے، ایسا بھی ہوا کہ موچی باغ میں پانی چھوڑ دیا گیا تاکہ وہاں ہونے والے جلسے کو ناکام بنایا جا سکے مگر ایسے میں سیاسی رہنما سرکلر روڈ پر ہی اسٹیج سجا لیتے۔
اس خستہ حال گراونڈ کے کنارے بنے اسٹیج کو غلام مصطفٰی کھر نے اپنی وزارت اعلٰی کے دوران تعمیر کرایا تھا ۔ اسٹیج کی خوبصورتی کے لئے لگا یا گیا سرخ رنگ کا پتھر جگہ جگہ سے اکھڑ چکا ہے جبکہ اسٹیج کی دیوار پر نصب کی گئی تعارفی پلیٹ بھی زمانے کی دست و برد سے بچ نہیں سکی اور اس کا دور دور تک نام ونشان نہیں ہے ۔
۔ جونہی موچی دروازے کے اندر داخل ہوں تو چند قدم چلنے کے بعد بالکل سامنے تین گنبدوں والی یہ مسجد آنے والوں کو توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہے۔ یہ مسجدسڑک سے ایک منزل بلندی پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس قدیم مسجد کا شمار اپنے نقش و نگار اور خوبصورتی کے باعث مغلیہ دور کی اہم عمارات میں کیا جاتا ہے۔ اکثر آیات قرانی اور احادیث و عبارات اس کی دیواروں پر نقش ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر منشی صالح کمبوہ دیوان صوبہ پنجاب نے کرائی تھی۔ مسجد کی تعمیر 1659 میں مکمل ہوئی تھی۔ اس مسجد کی کرسی اونچی ہے اور نیچے دکانیں ہیں۔ آج چار صدیاں گزرنے کے بعد بازار کی زمین اونچی ہو گئی ہے اور دکانوں نے نصف سے زائد زمین میں دھنس کر تہ خانوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دروازہ بھی چھوٹا سا رہ گیا ہے اور مسجد کی کرسی کی بلندی چار کی برابر رہ گئی ہے۔ اس مسجد کے مشرق میں منشی محمد صالح کمبوہ نے اپنی حویلی بھی بنوائی تھی۔ منشی محمد صالح کمبوہ نے شاہ جہان دور کی تاریخ عمل صالح تحریر کی تھی۔مسجد کمبوہ سے بائیں مڑ جائیں تو کوچہ لوہاراں آجاتا ہے جس آگے ملحقہ بازار صدا کاراں ہے اور اس


Follow us on:
Facebook:
  / ​.  .
Twitter:
  / gilanilogs  
Instagram:
  / zulfiqargil.  .

Комментарии

Информация по комментариям в разработке