Part 3/4: Aqaid e Ulma-e-Deoband By Sheikh Meraj Rabbani./ عقائد علماء دیوبند از شیخ معراج ربانی۔

Описание к видео Part 3/4: Aqaid e Ulma-e-Deoband By Sheikh Meraj Rabbani./ عقائد علماء دیوبند از شیخ معراج ربانی۔

کیسی مدد کا مانگنا شرک ہے؟​

ایک ایسا مسئلہ جو امت میں جھگڑوں کا باعث بنتا ہے . اگر اسے سمجھ لیا جائے تو اس فتنہ سے بچا جا سکتا ہے

مدد دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک مدد سے شرک ثابت نہیں ہوتا جبکہ دوسری قسم کی مدد سراسر شرک ہے ۔
اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں ‫:

ایک ڈوبتا ہوا شخص جب کسی دوسرے شخص سے مدد مانگتا ہے تو وہ شرک نہیں کر رہا ہوتا۔ کیونکہ وہ اسباب کے تحت مدد مانگ رہا ہے۔ اور ایسی مدد مانگنے کا ثبوت قرآن سے بھی ملتا ہے۔
جیسے درج ذیل آیات ‫:
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟
(سورہ 3 ، آیت : 52)
تمہارے پاس جو رسول آئے ۔۔۔ تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔
(سورہ 3 ، آیت : 81)
۔۔۔ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو ۔۔۔
(سورہ 5 ، آیت : 2)

کیونکہ اس مدد کے مانگنے میں عقیدہ شامل نہیں ہوتا۔ کوئی اللہ پر یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔۔۔ سب ایسی مدد مانگتے ہی ہیں ۔ اور کوئی بھی انسان چاہے وہ نبی ہو، رسول ہو یا بہت بڑا ولی اللہ ہی کیوں نہ ہو، اس کو کسی نہ کسی درجے میں دوسرے انسانوں کی مدد چاہئے ہی ہوتی ہے۔ اگر قرآن کی آیات میں ہمیں یہ سمجھا یاجا رہا ہے کہ ایسی مدد بھی اللہ ہی سے مانگو اور کسی انسان سے مدد نہ مانگو تو یہ تو انسان کے بس میں ہی نہیں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن جن معنوں میں اللہ کو بطور ولی و مددگار کافی قرار دیتا ہے ۔ وہ اسباب کے تحت والی مدد کے معنوں میں نہیں کہتا۔ بلکہ مافوق الاسباب یعنی بغیر اسباب والی مدد کے معنوں میں قرار دیتا ہے۔
مثلا یہی ڈوبتا ہوا شخص ، جبکہ اس کے پاس کوئی دوسرا موجود نہ ہو۔ تو یہ اب اسباب سے ہٹ کر دور بیٹھے یا قبر میں لیٹے کسی بزرگ ، ولی یا نبی کو پکارنا شروع کر دے۔ تو یہاں پر اسباب موجود نہیں۔
یہ ہے عقیدہ کا مسئلہ۔ اور یہی صریح شرک ہے۔ اس جگہ پر ایسی حالت میں جب وسائل موجود نہیں تو اس کو صرف اور صرف اللہ کو پکارنا چاہئے اور اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔

اب یہ مسئلہ مقید ہو گیا صرف
ماتحت الاسباب
اور
مافوق الاسباب
کی بحث میں ۔

یہ بات بھی بغیر دلیل کے نہیں کی جار ہی ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں یہ مسئلہ بیان کر دیا گیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے ‫:
‫ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ اچھا تم ان کو پکارو اگر تم سچے ہو تو چاہئے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔ بھلا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں ۔
(سورہ الاعراف 7 ، آیت : 194)

مندرجہ بالا آیت میں اللہ کے سوا بندوں کو پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی بتلایا جا رہا ہے کہ اگر پکارا جانے والا شخص جواب دے سکے، چل سکے، ہاتھ سے پکڑ سکے، آنکھ سے دیکھ سکے یا کان سے سن سکے تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر ان کو پکارا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوگا۔
پس ثابت ہوا کہ کسی کوولی بمعنی دوست سمجھ کر پکارا جائے ، تو درست وجائز۔ اور اگر مافوق الفطرت طور پر پکارا جائے جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارا جاتا ہے ۔ تو یہ ناجائز ہے ۔

Комментарии

Информация по комментариям в разработке