Mar na jayenge Hum | Poetry | Adnan Mohsin| Germany

Описание к видео Mar na jayenge Hum | Poetry | Adnan Mohsin| Germany

مر نہ جائیں گے ہم۔۔۔۔۔
شہر بستے ہیں
جب تیری خوشبو کی انگلی پکڑ کر
تجھے ڈھونڈتے قافلے اتفاقاً ملیں
پھر تری جستجو کی کہانی کہیں
تیرے قدموں کی مٹی سے معبد بنائیں
زمانے کو تج کر ترے ہو رہیں
رات پڑتی ہے
جب چاند تارے کھلی کھڑکیوں سے اتر کر
تری بند آنکھوں میں بہتی ہوئی نیند سے
آسماں زادیوں کے لیے خواب کے سُرخ موتی چنیں
تیری سانسوں کی مہکی ہوئی گنگناہٹ سنیں
رُت بدلتی ہے
جب تیری آواز کے اسمِ اعظم سے جنگل میں
بکھرے ہوئے زرد پتوں میں آوارگی جاگ اٹھے
تیری آہٹ کی سرگم کو سن کر
زمینوں میں سوئی ہوئی زندگی جاگ اٹھے
شام ڈھلتی ہے
جب تیری پوروں کو کارِ مسیحائی کرتا
قلم بوجھ لگنے لگے
تیری آنکھوں کو خود اپنی پلکوں کا خم بوجھ لگنے لگے
جھیل بنتی ہے
جب چوٹیوں پر ترے قہقہوں کی کھنک برف زاروں
کے نغموں کی ہم ساز ہو
دھوپ جھرنوں کے پانی میں بہتی چلی آئے
وادی میں گر تیری آواز ہو
سانس رکتی ہے
اب تو ترے شہر میں رہنے والوں کی خاطر
تری دید حسرت سے بڑھ کر نہیں
روشنی جن کے دن کا مقدر نہیں
نیلی رُت ہے اداسی کی
جس کی رسائی سے دل ایک لمحے کو باہر نہیں
شام ہے اور آنکھوں پہ کھلتا ہوا کوئی منظر نہیں
نارسائی کی اک جھیل ہے۔ ۔ ۔
جس کے پہلو میں کروٹ بدلتا سمندر نہیں
ایسے آسیب سے دل کو کب تک بچائیں گے ہم
مر نہ جائیں گے ہم؟؟؟
عدنان محسن

Комментарии

Информация по комментариям в разработке