Sheranwala Gate I Lahore's Old Port I Ships Sailed Here I Ranjit Singh's Hungry Lions I Gilani Logs

Описание к видео Sheranwala Gate I Lahore's Old Port I Ships Sailed Here I Ranjit Singh's Hungry Lions I Gilani Logs

#lahore #pakistan #history
Sheranwala Gate I Lahore's Old Port I Ships Sailed Here I Ranjit Singh's Hungry Lions I Gilani Logs

Videography: Muhammad Tariq

Lohari Gate Video Link:
   • Lohari Gate I First Chakla (Red Light...  
Masti Gate, Taxali gate, Roshnai Gate Video Link:
   • Masti Gate I Forgotten Trail I Madam ...  
Bhaati Gate Video Link:
   • Bhaati Gate Lahore I Home of Singer M...  
Mochi Gate Video Link:
   • Mochi Gate Lahore I Mystery of Laal K...  

تب راوی دریا لاہور شہر کی دیوار کے ساتھ بہتا تھا۔۔۔مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں بنا خضری دروازہ دریا کے گھاٹ کے ساتھ تھا اور کشتیاں یہیں سے چلتی تھیں۔
راوی دریا شاہی قلعے کے شمال مغرب سے بہتا، قلعے اور فصیل والے شہر کو گھیرتا، موری گیٹ کے بالکل باہر آج کے اردو بازار کے ساتھ جنوب مغرب کی طرف بڑھتا اور اس ٹیلے کے گرد گھومتا جہاں آج کل ضلعی عدالتیں ہیں۔
راوی کے اس وقت کے اور موجودہ راستے کو سمجھنا شاید یوں آسان ہو جائے کہ اکبر کے چچا اور لاہور کے حاکم کامران مرزا کی بارہ دری جو اب دریا کے ایک جزیرے پر ہے، اس سے ڈھائی کلومیٹر دور تھی۔قلعہ لاہور کی حالت اس زمانے میں کچھ اچھی نہ تھی۔ اس لیے کامران نے دریا کے پار اپنے لیے وسیع و گل ریز باغ کے درمیان ایک عالی شان محل (بارہ دری) تعمیر کرایا۔
لاہورمیں دو بحری جہازوں کی تعمیر 1594 اور 1596 میں ہوئی۔ مغل ہندوستان میں تیار ہونے والے جہازوں میں لوہا اور میخیں استعمال نہیں ہوتی تھیں بلکہ تختوں کو رسوں سے باندھا جاتا تھا۔پہلے جہاز کی لمبائی 35 گزالہیٰ، یعنی 93 فٹ سے اوپر، اور دوسرے کی 37 گز الہیٰ، قریباً 99 فٹ تھی۔ پہلے جہاز کو ٹھٹھہ لے جانے میں دریا میں پانی کی کمی کے باعث مشکل ہوئی تو دوسرا جہاز بجرے پر تعمیر کیا گیا جسے انگریز بحری جہاز کا اونٹ کہتے ہیں۔بدقسمتی سے جہازوں کے نام نہیں مل سکے کہ ان کی بعد کی تاریخ کی کھوج لگائی جا سکتی۔نہ جانے یہ لاہورسے ٹھٹھہ کی دوری کے باعث تھا یا اکبر کے 1598 میں دکن کی مہم کے لیے لاہور چھوڑنے کی وجہ سے، کہ جہاز سازی کا یہ تجربہ جاری نہ رہا۔
تب ٹھٹھہ اورلاہری بندر سندھ، ملتان اور پنجاب کو ہرمز، بشہر اور بصرہ سے جوڑتے اورمغربی ہندوستان کا فارس(ایران) سے تجارتی رابطہ بناتے۔
پرتگیز گجرات کے دونوں طرف موجود ہونے کی وجہ سے وہاں کی جہاز رانی کو تو کنٹرول کر لیتے تھے لیکن سندھ کے لاہری بندر پر ان کا بس نہ چلتا تھا۔ اکبر نے 1591 میں سندھ فتح کیا تو یہ بندرگاہ خالصہ یعنی شاہی انتظام میں رکھی۔لاہری بندر کے قریب جنگلات نہیں تھے، سو جہاز گجرات میں تیار اور مرمت ہوتے۔ اسی لیے اکبر کو لاہور میں جہاز بنانے کی سوجھی۔ انھیں ہمالیہ کی لکڑی سے تیار کیا اور دریائے سندھ کے ذریعے لاہری بندر لے جایا جا سکا۔
بحری جہاز بننا تو بند ہوا مگر بڑی، چھوٹی کشتیاں بنتی رہیں کیوں کہ پل نہ ہونے کے باعث دریا کے پار جانے، دریائی سفر اور تجارت کی ضرورت تھیں۔لاہور کی آبادی 12 کوس کے محیط میں تھی۔ اونچی دیوار، بارہ دروازے جہاں نوبت بجتی، ہاتھی اور محافظ گرز اور نیزوں کے ساتھ کھڑے ہوتے جنھیں دیکھ کر دل کانپ کانپ جاتا۔ راوی لاہورکے ساتھ ساتھ بہتا تھا۔ یہاں ہمیشہ بہت سی کشتیاں ہوتیں اور صاف شفاف پانی میں بطخیں اور بگلے تیر رہے ہوتے۔
لاہور سے راوی اور سندھ دریاوں کے راستے، 60 ٹن یا اس سے اوپر کی کئی کشتیاں سندھ میں ٹھٹھہ تک جاتی تھیں اور یہ تقریباً 40 دنوں کا سفر تھا۔مارچ 1639 میں بھی لاہور سے ٹھٹھہ تک 1000 اور 2000 من سامان کی عام نقل و حمل کشتیوں کے ذریعے ہوتی تھی۔ملتان سے دریا سے آمدورفت ہر وقت ممکن رہتی لیکن لاہور سے مارچ کے شروع سے اکتوبر میں ٹھنڈ شروع ہونے تک نقل و حمل جاری رہتی ۔ ٹھٹھہ سے لاہور جانے میں تاجروں کو چھ سے سات ہفتے اور لاہور سے واپسی پر 12 سے 18 دن لگتے۔پانچ سو سے 2000 من تک کی تمام کشتیوں کی راہداری 1000 روپے سے بہت کم آتی۔ اس کے علاوہ ملاحوں کو 10 یا 12 روپے اور محافظوں کو 20 روپے دیے جاتے۔ کسٹم مارکیٹ ریٹ کے مطابق ادا ہوتا۔جہاز رانی سے دلچسپی مغل شہنشاہوں جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب کے تحت بھی جاری رہی۔ اس کا مقصد تجارت اور حج ہوتا تھا۔
1662 میں اس کا رخ بدلنے کی وجہ سے شہر کو لاحق خطرے کے پیش نظر بادشاہ اورنگ زیب نے اس کے کنارے تقریباً چار میل کے فاصلے تک پختہ اینٹیں اور چونا گارے سے ایک بڑا بند تعمیر کروا دیا جس سے یہ شہر تباہی سے بچا رہا۔کچھ مورخین دریا کے رخ بدلنے کا واقعہ محمد شاہ بادشاہ کے دور یعنی 1719 سے 1748 کا درمیانی عرصہ کا بتاتے ہیں۔
محمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں بند عالمگیری کی وجہ سے دریا کا بہاؤ باغ کی دیواروں تک آ پہنچا۔ سکھوں کے زمانے تک دریا نے باغ کی دیواروں کو منہدم کر کے شاہی محلات کا صفایا بھی شروع کر دیا۔ چنانچہ رنجیت سنگھ کے آخری دس سالوں میں پانی کے بہاؤ نے بارہ دری کی قدم بوسی شروع کر دی۔یہ 1830 سے 1832 کے زمانے کا ذکر ہے۔ ایک سو سال سے زیادہ عرصہ راوی کی لہریں بارہ دری سے ٹکراتی رہیں۔ پہلے میرزا کامران کا عالی شان باغ دریا برد ہوا پھر بارہ دری بھی دریا کی نذر ہونے لگی اور وہ دریا کے اندر آ گئی۔راوی کے رخ بدلنے پر کامران کی بارہ دری اب دریا میں ابھرے ایک جزیرے پر ہے۔
زمزمہ توپ کو مہاراجا رنجیت سنگھ نے ملتان کی جنگ کے لیے کشتی میں لاد کر ہی بھیجا تھا۔
واس دروازے کا پرانا نام خضری دروازہ بھی ہے۔ جس کی وجہ تسمیہ یہ روایت بتائی جاتی ہے کہ حضرت خضر اس دروازے سے باہر نکل کر راوی دریا میں اتر گئے تھے۔ سکھوں کے زمانے میں خضری دروازہ شیراں والا دروازہ کے نام سے جانا جانے لگا، یہ ان دو شیروں کی وجہ سے تھا جو رنجیت سنگھ نے وہاں پنجروں میں رکھے تھے۔ انگریزی عہد میں وہ پنجرے اُٹھوائے گئے مگر دروازے کا نام شیراں والہ دروازہ بحال رہا۔

Follow us on:
Facebook:
  / ​.  .
Twitter:
  / gilanilogs  
Instagram:
  / zulfiqargil.  .

Комментарии

Информация по комментариям в разработке