Mubarak Siddiqi Sahib Ke Saath Bazm e Sukhan 07-05-23 مبارک صدیقی صاحب کے ساتھ بزمِ سخن Raunheim

Описание к видео Mubarak Siddiqi Sahib Ke Saath Bazm e Sukhan 07-05-23 مبارک صدیقی صاحب کے ساتھ بزمِ سخن Raunheim

Funny Poetry مذاحیہ شاعری & Khizan Ki Rut Main Gulab Lehja خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ & Sitara Ban Ke Raho ستارہ بن کے رہو & Agar Woh Samne Aae اگر وہ سامنے آئے Mushaaerah مشاعرہ

Latest Bazm e Sukhan WIth Mubarak Siddiqi Sahib
Arranged By Local Amarat Rüsselsheim am Main Stadt in Hessen Germany on the 7th of Mai 2023 in Dogar Hail Anton-Flettner Str. 24, 65479 Raunheim ڈوگر شادی ہال
مبارک صدیقی صاحب کے ساتھ بزمِ سخن

غزل
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا جلا کے رکھنا کمال یہ ہے

ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا کمال یہ ہے

کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا کمال یہ ہے

خیال اپنا مزاج اپنا پسند اپنی کمال کیا ہے
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا کمال یہ ہے

کسی کی رہ سے خدا کی خاطر اٹھا کے کانٹے ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا کمال یہ ہے

وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا کمال یہ ہے

غزل
ستارہ بن کے رہو یا کسی دیےء میں رہو۔
کسی بھی حال میں، جگمگ سے سلسلے میں رہو۔
ہر ایک عزت و رفعت ہے خاکساری میں۔
سو چاند چُھو کے بھی مٹی سے رابطے میں رہو۔
نِظامِ شمس و قمر دیکھ کر یہ جانا ہے۔
محبتوں میں بھی، مخصوص دائرے میں رہو۔
قدم قدم پہ درندے ہیں، راہزن ہیں یہاں۔
تو عافیت ہے اِسی میں، کہ قافلے میں رہو۔
کسی کو دشت میں دریا کے روپ میں مِلنا۔
کسی کی یاد کے زندہ سے
معجزے میں رہو۔
کسی کی آنکھ میں بن کر خوشی کا اِک آنسُو۔
کسی اُداس سے چہرے کے قہقہے میں رہو۔
گُلاب ایسے بھی، دل کے لہُو سے بو جاؤ۔
کہ مر بھی جاؤ تو خوشبُو کے تذکرے میں رہو ۔
کوئی جو تم سا نہیں پارسا ، تو وہ جانے۔
نہ حد سے زیادہ کسی کے معاملے میں رہو۔
تمہارے حُسن سے دنیا جو جلتی رہتی ہے۔
یہ تم اکیلے نہیں ہو،
سو حوصلے میں رہو۔
اجَل نے ایک دن دستک ضرور دینی ہے۔
بھلے محل میں رہو یا کے جھونپڑے میں رہو۔
امیرِ شہر کی مانو تو پھر ضمانت ہے۔
نہیں تو عمر بھر یونہی مقدمے میں رہو۔
انا کے جُرم میں کاٹو نہ قیدِ تنہائی
حِصار توڑ دو یا پھر محاصرے میں رہو۔
تو کیا عجب ہے کہ اُسکی نگاہ پڑ جائے ۔
سو دل بِچھائے ہوئے اُسکے راستے میں رہو۔
سکونِ قلب کے بس دو ہی تو ٹھکانے ہیں۔
خدا کے گھر میں رہو یا مشاعرے میں رہو۔
وہ شخص فطرتاََ ہی مسکرا کے ملتا ہے۔
سو تم مبارک نہ، یوں ہی مغالطے میں رہو-


غزل
اگر وہ سامنے آئے، وہ اتنا پیارا ہے
تو دل میں دیپ جلائے وہ اتنا پیارا ہے

غزل ، کہانی ، گرامر ، اُسے سلامی دیں
اگر وہ اردو پڑھائے ، وہ اتنا پیارا ہے

گُلاب اُس کے بدن سے ادھار لے خُوشبو
صبا گلے سے لگائے وہ اتنا پیارا ہے

وہ لب کُشا ہو تو غالِب کرے قدم بوسی
کہے گا میر بھی ‘‘ہائے’’ وہ اتنا پیارا ہے

وہ فلسفے پہ جو بولے تو فرطِ حیرت سے
ارسطو سر کو کھجائے، وہ اتنا پیارا ہے

اُسی کی بات کو میں آخری سند سمجھوں
اُسی کی ‘‘رائے’’ ہے رائے ، وہ اتنا پیارا ہے

فراز و فیض اُسے داد دیں مَزاروں سے
وہ جب بھی شعر سنائے ، وہ اتنا پیارا ہے

اُسی کے واسطے میں بن سنور کے سوتا ہوں
کہ کاش خواب میں آئے، وہ اتنا پیارا ہے

میں چاہتا ہوں کسی روز وہ خفا ہو کر
مجھے بھی چار ‘‘سنائے’’ وہ اتنا پیارا ہے

وہ میکدے کو جو دیکھے تو میکدہ جُھومے
سبُو کو ہوش نہ آئے وہ اتنا پیارا ہے

تو پھر وہ ذرّہ بھی گوہر مثال ہوتا ہے
جسے وہ ہاتھ لگائے وہ اتنا پیارا ہے

میں بھول جاؤں گا سارے بہشت کے منظر
اگر وہ پاس بٹھائے ، وہ اتنا پیارا ہے

میں چاہتا ہوں کسی روز برف باری ہو
اسے پلاؤں میں چائے وہ اتنا پیارا ہے

وہ شخص دیکھنے نکلے کبھی جو عید کا چاند
تو چاند نوروں نہائے وہ اتنا پیارا ہے

میں اس کے شہر کی مٹی بھی چوم سکتا ہوں
دل و نظر کو بچھائے وہ اتنا پیارا ہے

وہ سامنے ہو تو پھر جی ، حضور ، وہ ، میں ، نا
سمجھ میں کچھ بھی نہ آئے وہ اتنا پیارا ہے

Комментарии

Информация по комментариям в разработке