حکمت اور فلسفہ کیا ہے؟# ڈاکٹر اسرار احمد

Описание к видео حکمت اور فلسفہ کیا ہے؟# ڈاکٹر اسرار احمد

ایک تحقیقی مقالہ۔۔ڈاکٹر مفسرح​
احکام کا معنی و مفہوم
راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:
اس کے معنی کسی چیز کی اصلاح کے لیے اسے روک دینے کے ہیں اور جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے اسے حاکم کہا جاتا ہے اور اس کی جمع حکام آتی ہے۔ (المفردات،ص۱۲۷؛المصباح المنیر،ص۷۸)
لسان العرب میں حکم کے معانی یوں بیان کیے گئے ہیں:
’’العلم والفقہ والقضاء بالعدل‘‘ (المفردات، ص۱۲۷. المصباح المنیر،ص۷۸)
حکم علم و فقہ کو بھی کہتے ہیں اور عادلانہ فیصلے کو بھی۔
تاج العروس میں حکم کے معنی ہیں:
’’رائے یا فیصلہ‘‘ (تاج العروس، ۱۶؍۱۶۰؛کتاب العین،ص۲۰۴)
اور جوہری رحمہ اللہ نے بیان کیے ہیں:
’’الحکمۃ من العلم۔‘‘ (الصحاح،۵؍۲۲۵)
اردو دائرہ معارف میں بیان ہے:
’’حکم کی جمع احکام ہے اور اس سے مراد وہ تمام قواعد ہیں جو کسی دیے ہوئے موضوع سے متعلق ہوں۔ (اردو دائرۃ المعارف،۲؍۴۵)
علم ِاحکام کے متعلق شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
واجب مندوب،مباح،مکروہ اور حرام امور کا علم خواہ ان کا تعلق عبادات سے ہویا معاملات سے وہ تدبیر منزل سے تعلق ہو یا سیاستِ مدن ہے۔ (الفوز الکبیر فی اصول التفسیر،ص۱۱)
قرآنِ کریم میں ’’الحکم‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے فرماں روائی اور اختیارات فیصلہ کے معنوں میں بیان ہوا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ (سورۃ یوسف ۱۲:۴۰)
فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ (سورۃ الانعام ۶:۵۷)
فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے۔ وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ (سورۃ الأنعام،۶:۶۲)
خبردار ہو جاؤ !فیصلے کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔
لہٰذا مذکورہ بالا تعریفات اور قرآنِ کریم کی روشنی میں احکام سے مراد اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جس کے ذریعے بندوں کے بعض افعال کو واجب یا مستحب قرار دیا گیا ہو اور بعض کو حرام یا غیر مستحسن قرار دیا گیا ہو۔
محمد نعیم یونس

احکامِ الٰہیہ کی اقسام
احکامِ الٰہیہ کی اقسام کے متعلق محمد علی تھانوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
ما شرع اللہ لعبادہ من الأحکام التی جاء بھا نبی من الأنبیاء سواء کانت متعلقۃ بکیفیۃ عمل وتسمی فرعیۃ و عملیۃ… او بکیفیۃ الاعتقاد و تسمی اصلیۃ واعتقادیۃ۔ (محمد علی تھانوی، کشاف اصطلاحات الفنون،۲؍۷۵۹)
اللہ تعالیٰ نے جو احکام اپنے انبیاء کے ذریعے اپنے بندوں کے لیے بھیجے وہ شریعت ہے ان احکام کا تعلق اگر عمل سے ہے تو انھیں فرعی اور عملی شریعت کا نام دیا جاتا ہے… اگر وہ اعتقادات سے متعلق ہوں تو انھیں اصلی اور اعتقادی شریعت کہا جاتا ہے۔
احکامِ الٰہیہ کی مزید وضاحت ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کرتے ہیں:
احکامِ الٰہیہ کی دو قسمیں ہیں ان میں ایک احکام شریعہ ہیں جو وحی الٰہی سے مشروع اور مقرر ہوتے ہیں۔ ان کا خطاب ذوالعقول کو ہوتا ہے خواہ وہ انسان ہوں یا جن، ان میں اوامرالٰہیہ حلال و حرام، جائز و ناجائز عبادات سے متعلقہ احکام ہوتے ہیں جو عموماً شریعت اور دین ہیں۔ اور احکامِ الٰہیہ کی دوسری قسم تکوینی ہے جو اللہ کی تمام مخلوق اور ساری کائنات پر جاری ہوتے ہیں وہ اللہ کے تقدیری امورہیں مثلاً شمس و قمر کا طلوع، نور وظلت،ہواؤں کا چلنا، بارشوں کا برسنا، انسان و حیوان اور نباتات کی پیدائش و نشوونما جیسے امور ہیں۔ (ادریس کاندھلوی، معارف القرآن، ۷؍۵۲۹)
احکامِ الٰہیہ کا مقصد و فلسفہ
دنیا کا کوئی ملکی اور ملی نظام ایسا نہیں ہے جس کی کوئی غرض و غایت اورمنزل مقصود نہ ہو ہر مذہب اپنا ایک خاص نظریہ اور مطمع نظر رکھتا ہے جس پر وہ دوسروں کو گھیر کر لانا چاہتا ہے جب انسانی نظام و دستور بلا ضرورت اور بے فائدہ نہیں بنایا جاتا تو یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ جس علیم و خبیر اور حکیم و بصیر کی مشیت و ارادہ کے بغیر دنیا کا کوئی نظام ایک دقیقہ کے لیے بھی نہیں چل سکتا اس کے نظام کا کوئی منشاء و مقصود نہ ہو۔ (عبدالرحمن،احکام قرآنی،ص۱۷)
شاہ ولی اللہ احکامِ الٰہی کی حکمت و فلسفہ بیان کرتے ہیں:
بندوں کے بعض افعال ایسے ہوتے ہیں جن سے پروردگار عالم خوش ہوتا ہے اور بعض افعال کی وجہ سے وہ ان سے ناخوش ہوتا ہے اور بعض افعال ایسے ہوتے ہیں جن سے خوش ہوتاہے نہ ناخوش ۔اسی واسطے حکمت بالغہ اور رحمتِ کاملہ الٰہی کا اقتضاء ہوا کہ انبیاء کو مبعوث کر کے لوگوں کو ان کے افعال پر آگاہ کر دے جن سے ان کی رضا مندی اور ناراضی کا تعلق ہوا کرتا ہے تاکہ جو ہلاک ہونے والے ہیں وہ دلیل کے بعد ہلاک ہوں اور جو زندگی حاصل کرنے والے ہیں وہ بھی بعد دلیل ہی کے زندہ ہوں۔ پس کسی فعل سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور عدم رضا کا تعلق ہونا یا دونوں حالتوں سے افعال کا بے تعلق ہونا اس کا نام حکم ہے۔ یا یوں کہو کہ حکم کسی شئے کا ایسی حالت پر ہونا ہے کہ لوگوں سے اس کا مطالبہ کیا جائے یا وہ اس سے روکے جائیں یا اس میں مختار ٹھہرائے جائیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ،۱؍۱۹۷؛شعبان محمد اسماعیل، التشریح الاسلامی،ص۱۷)
نذیر الحق میرٹھی بیان کرتے ہیں:
انسان اس دنیا میں اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے اسے دنیا میں اسی حیثیت سے سوچنا اور رہنا چاہیے۔ جو خدا نے اس کے لیے مقرر کیا ہے اور تمام امور و معاملات اور تمدن و معاشرت میں اسے اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے چاہئیں۔ پس احکامِ الٰہیہ کا مقصود یہی ہے کہ انسانوں کو صحیح فکر ،صحیح علم، صحیح عمل اور صحیح آزادی دے کر فلاح انسانیت کی تمام راہیںکھول دے۔ (مسلمان اسلام کی کسوٹی پر، ص۲۶؛جلال الدین، احکام القرآن، ۵؍۳۰۶)
اشرف علی تھانوی احکامِ الٰہیہ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہیں:

Комментарии

Информация по комментариям в разработке