Zakir Nabi Bakash Joiya Masaib .... ذاکر نبی بخش جوئیہ مرحوم

Описание к видео Zakir Nabi Bakash Joiya Masaib .... ذاکر نبی بخش جوئیہ مرحوم

Yadgar Majlas
Masaib Bazar e shaam
Zakir Nabi Bakhash Joiya Marhoom

یادگار مجلس
مصائب بازار شام
ذاکر نبی بخش جوئیہ مرحوم

جبل الصبور، زینب سلام اللہ علیہا

پنجاب کے بزرگ ذاکر بابا نبی بخش جوئیہ مرحوم بی بی زینبؑ کے مصائب پڑھتے ہوئے جس کا پہلا جملہ
"اے رب العزت میں زینبؑ آں تے اگوں تنگ بازار دا موڑ اے"
سنتے ہی مجلس میں بیٹھے ہر شخص کی آنکھوں سے برسات شروع ہوجاتی تھی،
مصائب کے اس جملے پہ غور کریں تو انسان کے جذبات بے قابو ہوجاتے ہیں ، انسان کا تعلق چاہے کسی بھی قوم قبیلہ یا مذہب سے ہو لیکن قدرت نے ہر انسان میں ایک جذبہ مشترک رکھا ہے، دنیا کا ہر انسان اپنے بیٹوں کی بنسبت بیٹیوں کے بارے میں زیادہ حساس ہوتا ہے، سات بیٹے ہوں اور وہ خدا نخواستہ قتل ہوجائیں انسان پھر بھی برداشت کرجاتا ہے لیکن ایک بیٹی ہو اور اسے کوئی ڈانٹ بھی دے باپ کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے، کئی ایسے واقعات دیکھے ہیں کہ لوگ خاندانی دشمنی کے باوجود ایک دوسروں کی بیٹیوں کو عزت و احترام دیتے ہیں۔
ہر بیٹی اپنے باپ کی شہزادی ہوتی ہے، باپ دہاڑی دار مزدور بھی ہوپھر بھی وہ اپنی بیٹی کے لئے بادشاہ سے کم نہیں ہوتا۔
آئیے اب ذرا محمدؐ عربی کے شہر مدینہ چلتے ہیں،قرآن پاک کی طرح غلاف میں لپٹی ہوئی بیٹی علیؑ مولا نے پاک نبیؑ کے مقدس ہاتھوں میں رکھی، غلاف ہٹایا پاک نبیؑ نے پیشانی پہ بوسہ دیا اور رو پڑے نام رکھا زینب یعنی باپ کی زینت اور ساتھ ہی کہا یہ ام المصائب ہے، اپنی ماں فاطمہؑ کے بعد سیدہ زینبؑ نے اپنے بابا علیؑ کا ہر مقام پہ ساتھ دیا بھائیوں کو ماں بن کر پالا، حسینؑ بادشاہ کو اپنی بہن کے ہوتے اپنی ماں کی جدائی زیادہ محسوس نا ہوتی، عرب بدووں کی بیٹیوں کو پردہ سکھایا، دشمنوں کی بیٹیوں کو بھی قرآن پڑھایا۔

باپ کی زینت اس ہستی کا ایک لقب جبل الصبور بھی یے لیکن بی بی زینبؑ کے صبر کے سامنے یہ لفظ بہت چھوٹا نظر آتا ہے کائینات میں ایسی صابر خاتون ہے جس کی ماں کو اسکی آنکھوں کے سامنے زخمی کیا جائے پھر کوفہ میں باپ کو شہید کردیا جائے پھر مدینہ میں بھائی کو زہر دے کر میت پہ بھی تیر برسائے جائیں، کچھ عرصہ بعد بھائی حسینؑ کو وطن چھوڑنے پہ مجبور کردیا جائے، جب مدینہ کے لوگ سُکھ کی نیند سورہےتھے تب مدینہ کے وارث مدینہ چھوڑ گئے، پھر اسی بی بی نے بھائی کے ساتھ کعبہ میں احرام توڑ کر کربلا کا سفر کیا پھر پیاس تو برداشت کی ہی سہی مگر ایک دن میں اپنے گھر سے 72 جنازے نکلتے اور پھر جنازوں کو لُٹتے دیکھا ، امت نے اس صابرہ کا امتحان کربلا تک محدود نہیں کیا ہاتھ پس گردن باندھ کر وحشی اونٹوں پہ سوار کیا اور پھر شام کے رزیل لوگوں کے سامنے پیش کیا، سیدہ زینبؑ کو جب تنگ بازار نظر آیا تو
بھائیوں کا قتل بھول گیا، خدا سے التجاء کی اے رب العزت میں باپ کی زینت بیٹی ہوں اور آگے بازار کا تنگ موڑ آگیا ہے،
شرابی کے دربار میں پیشی کے بعد زندان شام کی قید اور پھر اپنے لُٹے قافلہ کے ساتھ جب سیدہ زینبؑ مدینہ پہنچیں تو اپنی ماں کی قبر پہ گئیں جیسے ایک چھوٹی بچی ماں کے سامنے گلے شکوے کرتی ہیں، زینبؑ نے ماں کو سارے حال سنائے مجھے لگتا ہے اس دن کائینات کا ذرہ ذرہ رویا ہوگا، پرندے بھی ام المصائب کے مصائب سن کے مر گئے ہوں گے۔

لوگ پوچھتے ہیں شیعہ کیوں بازاروں میں شور مچا کے روتے ہیں؟ کہنا تو یہ چاہیے شیعہ آل محمدؑ کی بیٹیوں کے دُکھ سن کر مر کیوں نہیں جاتے؟ آپ کو اپنی بیٹیاں اتنی پیاری ہیں کہ ذرہ سی تکلیف برداشت نہیں ہوتی کیا علیؑ کو اپنی بیٹیاں پیاری نا تھیں؟

کیا جرم تھا آل نبیؑ کا کہ مسلمانوں نے قبروں کے ساتھ قبریں بھی نا بننے دیں۔ روز حشر تک یہ غم رُلائے گا کہ جس کا کلمہ پڑھتے تھے اسی کی اولاد کو در در قید ۔کرکے پھراتے رہے مسلمان۔

سیدہ زینبؑ کی شہادت کے پُردرد موقع پہ آپ سب اہل درد اور امام زمن عج کی خدمت میں تعزیت۔😭

Комментарии

Информация по комментариям в разработке