Zeb-un-Nissa I Secret Love of Unmarried Mughal Princess I Lady of Sorrow I Anonymous Tomb of Lahore

Описание к видео Zeb-un-Nissa I Secret Love of Unmarried Mughal Princess I Lady of Sorrow I Anonymous Tomb of Lahore

#zaibunnisa #mughal #lahore
Zeb-un-Nissa I Secret Love of Unmarried Mughal Princess I Lady of Sorrow I Anonymous Tomb of Lahore

Videography: Muhammad Luqman Sarwar

زیب النسا (خواتین کی زینت) شہزادہ محی الدین( مستقبل کے شہنشاہ اورنگ زیب) کی سب سے بڑی صاحبزادی ، شادی کے ٹھیک نو ماہ بعد ، 15 فروری 1638 کو دکن کے شہر دولت آباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ دلرس بانو بیگم ، اورنگزیب کی پہلی بیوی اور ایران کے حکمران خاندان کی شہزادی تھیں۔
تین برس کی عمر میں اسے قرآن کی متعدد آیات یاد ہوچکی تھیں۔ مسلمانوں کی روایت کے مطابق چار برس، چار ماہ اور چار دن کی عمر میں اس کی رسم بسم اللہ ہوئی اور اسے ایک ایسی حافظۂ قرآن مریم کے سپرد کردیا گیا جو نیشا پوری تھی اور اپنے شوہر شکر اللہ کشمیری کے ساتھ ہندوستان آئی تھی۔ زیب النسا نے سات برس کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تو شہزادہ اورنگ زیب کے لیے پہلی اولاد کے حوالے سے یہ ایک یادگار واقعہ تھا۔ لڑکیوں کے حفظِ قرآن پر اس طرح خوشی نہیں منائی جاتی تھی لیکن اورنگ زیب نے اس موقع پر ایک شاندار تقریب منعقد کی اور اسے یادگار بنادیا۔ حافظہ مریم کو 30ہزار اشرفیاں بہ طور انعام دی گئیں۔
اورنگزیب نے صرف ونحو کی تعلیم کے لیے ملا جیون کو مقرر کیا، جس کے بعد اس نے ملا سعید اشرف ماژند رانی سے 14 برس تک مختلف علوم حاصل کیے۔ ملا ماژ ند رانی نے ہی اسے شعر فہمی کے نکات تعلیم کیے۔ اس نے عربی میں بھی شعر کہے لیکن پھر فارسی کا دامن تھام لیا۔ فارسی اس کی مادری اور مغل دربار کی زبان تھی اور اس میں شعر کہنے کی مشق اس نے چھ برس کی عمر سے شروع کردی تھی۔
اس دوران اس نے فارسی، عربی، سنسکرت اور ہندی میں مہارت حاصل کی۔ وہ حساب، جغرافیہ ، شہسواری، نیزہ بازی اور شمشیر زنی میں اپنے بھائیوں اور کسی بھی ہم عمر عم زاد سے کم نہ تھی۔
ابتدائی عمر سے ہی پنچ تنتر کتھا،حکایات بیدپائے اور حافظ کی شاعری اس کا دل لبھاتی تھی۔ اورنگزیب نے دکن کے صوبے دار کے طور پر اور بعد میں جب وہ تخت طائوس پر جلوۂ افروز ہوا تب بھی دیوان حافظ کو لڑکوں کے لیے مدارس میں اور محلات میں بیگمات کے لیے ممنوع قرار دیا تھا لیکن زیب النسا پر یہ پابندی عائد نہیں کی گئی تھی اور وہ دیوان حافظ کا ناصرف مطالعہ کرتی تھی بلکہ یہ دیوان ہمہ وقت اس کے ساتھ رہتا تھا۔ اورنگزیب کو شاعری اور وہ بھی شہزادیوں کی شاعری سخت ناپسند تھی۔ اس کے باوجود یہ بھی زیب النسا تھی جسے اورنگزیب نے شعر کہنے سے روکنے کی کوشش نہ کی اور زیب النسا نے بھی باپ کے احترام میں اپنی شاعری کو پس پردہ رکھا ۔ شاید ’’مخفی‘‘ کا تخلص بھی اس نے اسی لیے اختیار کیا۔
وہ دولت آباد کے محلوں میں پھرتی، گوالیار کے قلعے کی بھی اس نے سیر کی تھی۔ اس بات سے آگاہ تھی کہ مان سنگھ کے بنوائے ہوئے اس قلعے میں کتنے ہی مغل شہزادوں نے اپنی زندگی کے دن قید میں گزارے تھے۔
زیب النساء کی زندگی کا دھارا اس وقت بدل گیا جب اس نے آگرہ کا سفر کیا جہاں اس کے دادا شاہ جہاں کی حکمرانی تھی۔ زیب النسا نے اپنے دادا کے بنوائے ہوئے تاج محل کے سیر کی، آگرہ کا قلعہ اور محلات دیکھے جہاں کے دربار اور دکن کے درمیان زمین وآسمان کا فرق تھا۔ آگرہ کے بعد وہ اپنے دادا کے ہم رکاب دلی گئی جہاں لال قلعہ اور تخت طاوس تھا اور مغل جاہ وجلال نصف النہار پر پہنچ چکا تھا۔
یہاں اس کی ملاقات اپنے تایا دارا شکوہ سے ہوئی جسے اس کا چہیتا باپ ناپسند کرتا تھا۔ داراشکوہ نے اسے خطاطی کا درس دیا اور اسے سلسلۂ قادریہ کے صوفیا سے متعارف کرایا جبکہ اس کی پھوپھیوں جہاں آرا اورروشن آرا نے اسے نقش بندی، قادری، چشتی، سہرودی اور شطاری سلسلوں سے آشنا کیا۔
زیب النسا کے زوال کا سبب شہزادہ محمد سلطان کی باپ سے بغاوت کو بیان کیا جاتا ہے۔ زیب النسا نے اپنی ماں دل رس بانو بیگم کی بے وقت موت کے بعد اکبرکی ماں بن کر اس کی پرورش کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب شہزادہ اکبر نے اپنے باپ اورنگزیب کے خلاف بغاوت کی، اس دوران اس کی شہزادی زیب النسا سے خط وکتابت بھی رہی اور زیب النسا کے یہی خطوط اس کے زوال کا سبب بنے۔ بغاوت ناکام رہی، شہزادہ اکبر فرار ہوگیا اور زیب النسا کے وہ خطوط اورنگزیب عالمگیرکے سامنے پیش کیے گئے تواورنگزیب کا سارا طیش اور انتقام شہزادی زیب النسا پر آسمانی بجلی کی طرح گرا اور اسے خاکستر کرگیا ۔ زیب النسا کی تمام جائیداد ضبط ہوئی، اسے ملنے والا سالانہ وظیفہ جو چار لاکھ کی خطیر رقم پر مشتمل تھا بہ یک قلم موقوف ہوا۔ وہ جنوری کی یخ بستہ رات تھی جب حسن میں یکتا، فن میں باکمال اور شاعری میں بے مثال وہ عورت اپنے ہاتھی پر آخری بار سوارکرائی گئی اور سلیم گڑھ کے قلعے میں غروب ہوگئی۔ اس وقت اس کی عمر 43 سال تھی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1662 میں جب اورنگزیب عالمگیر کی طبیعت ناساز ہوئی تو فضا کی تبدیلی کے لیے لاہور کا رخ کیا گیا۔ وہ خاندان کے دیگر افراد بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس وقت لاہور پر ان کے ایک وزیر کا بیٹا عاقل خان گورنر تعینات تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادی زیب النسا اور عاقل خان ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہوگئے، بادشاہ کو یہ بات گوارا نہ ہوئی لہٰذا عاقل خان کو زندہ دیگ میں پکوا دیا گیا اورشہزادی زیب النسا کو قیدِ تنہائی میں ڈال دیا۔
شہزادی زیب النسا نے 1702ء میں قید کی حالت میں جب وفات پائی تو اس وقت شہنشاہ ہندوستان دکن کی مہمات میں مصروف تھے۔ زیب النسا کو وفات کے بعد کہاں دفن کیا گیا اس بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ بعض مورخین کے مطابق شہزادی کو لاہور میں دفن کیا گیا جبکہ مختلف تحقیقی حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زیب النسا کی قبر لاہور میں نہیں دہلی میں تھی۔ بادشاہ کے حکم سے اسے تیس ہزاری باغ میں دفن کیا گیا۔ یہ باغ شنشہاہ عالمگیر کی بہن جہاں آرا بیگم کا تھا، جن کی وفات کے بعد اسے زیب النسا کی ملکیت میں آگیا تھا۔

Follow us on:
Facebook:
  / ​.  .
Twitter:
  / gilanilogs  
Instagram:
  / zulfiqargil.  .

Комментарии

Информация по комментариям в разработке