The Power of Istighfar | Ahmadiyya | Hazrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih V (aba)

Описание к видео The Power of Istighfar | Ahmadiyya | Hazrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih V (aba)

An extract from the Friday Sermon delivered by the Head of the Ahmadiyya Muslim Community, Hazrat Mirza Masroor Ahmad (may Allah be his Helper) on 30 April 2021.

For more information, visit https://alislam.org and https://mta.tv

00:00 Intro
00:07 Benefits of Istighfar
03:21 Story of a person who committed 99 murders

Summary:

Seeking forgiveness through this prayer also enables one to fulfill the commandments of God. It should not be prayed only after one commits a fault, rather it should be done on a continuous basis, so that one may also be saved from the potential of committing future faults, and thus attain nearness to God. Thus, it is imperative to seek forgiveness both when a fault is committed and even when it is not committed. Satan is ever-ready to strike at any time. Thus, God states that in order to be saved from such attacks, we must constantly make use of this prayer.

His Holiness(aba) said that the mercy of God is extremely vast. In fact, God Almighty Himself has stated that His mercy encompasses all things. This is explained through a story related by the Holy Prophet(sa). There was a person who had committed 99 murders. He felt bad and went to a person to ask if he could be forgiven. That man said that after having committed 99 murders, there was no way for him to be forgiven; so he killed that man, and thus killed 100 people. He then went to another person with the same question. That person told him that the door to God’s mercy is always open, and told him that he should travel to such and such place where he would find people who supplicate to God. He should join them and seek forgiveness. However, he could never return to his former city, as true repentance is to never return. Thus, he set out for that place, but he died along the way. The angels for mercy and punishment came to determine his fate. The angel for punishment said that he should be punished for his crimes, whereas the angels for mercy sought for him to be forgiven. It was decided that it would be seen whether he was closer to the origin of his journey or closer to his desired destination, and that would determine what his fate would be. When they measured, he was only slightly closer to his destination, and so God showed mercy and he was taken to Paradise.

پس عبادتوں کے بجا لانے کے لیے، شیطان کے حملوں سے بچنے کے لیے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کے لیے استغفار ایک انتہائی اہم اور ضروری چیز ہے۔ صرف یہ نہیں کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو پھر ہی استغفار کرنی ہے۔ بےشک اس وقت بھی استغفار اور توبہ بہت ضروری ہے کیونکہ پچھلے گناہ کی بخشش اور آئندہ گناہوں سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے جو استغفار کے ذریعہ سے ملتی ہے۔ پس گناہ سرزد ہونے پر بھی اور نہ سرزد ہونے پر بھی دونوں صورتوں میں استغفار انتہائی اہم ہے۔ شیطان تو ہمارے راستے پر کھڑا ہے۔ انسان اپنی کوششوں سے اس سے بچ نہیں سکتا۔ انسان یہ کہہ دے کہ میں اپنی کوشش سے اس سے بچ جاؤں گا تو ممکن نہیں۔ اس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مدد چاہی جائے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری مدد حاصل کرنے کے لیے، میری مدد چاہنے کے لیے تم کثرت سے استغفار کرو۔ یہی ذریعہ ہے جو آئندہ شیطانی حملوں سے بھی محفوظ رکھے گا اور گذشتہ گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ بنے گا۔ انسان کمزور ہے اس لیے استغفار بہت ضروری ہے کیونکہ استغفار طاقت دیتا ہے۔ استغفار طاقت دیتا ہے کہ بشری کمزوریوں سے بچائے اور شیطان کے حملوں سے بچنے کی طاقت دے۔ پس مسلسل استغفار اللہ تعالیٰ کی صفت قیومیت کو حرکت میں لائے گی اور استغفار کرنے والا ہر برائی سے بچایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی طرف آنے والے کو اپنے ساتھ چمٹانے والا ہے۔ جو شخص گناہوں کے ارتکاب کے بعد توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی بھی توبہ قبول کرتا ہے اور جو گناہوں سے بچنے کے لیے، شیطانی حملوں سے بچنے کے لیے اس کی طرف دوڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی استغفار بھی قبول کرتا ہے۔ اسے شیطان کے حملوں سے بچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی وسعت کتنی زیادہ ہے اس بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ یہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک شخص کا قصّہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس نے ننانوے قتل کیے۔ آخر ندامت ہوئی اور توبہ کا خیال آیا۔ آخر وہ ایک عالم کے پاس گیا۔ اس سے توبہ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا اتنے گناہ اور اتنے قتل کر کے تم کس طرح بخشے جا سکتے ہو؟ اس شخص نے اس عالم کو بھی قتل کر دیا اور اس طرح سو قتل ہو گئے۔ اس کے بعد پھر اسے ندامت ہوئی۔ جب سو قتل ہوگئے تو پھر ندامت ہوئی کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ پھر ایک بڑے عالم کے پاس پہنچا۔ اس سے بات کی۔ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ہاں توبہ کا دروازہ تو ہر وقت کھلا ہے۔ اگر تم حقیقی توبہ کرنا چاہتے ہو تو پھر سنو کہ فلاں علاقے میں جاؤ۔ وہاں لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوں گے، دین کے کام کر رہے ہوں گے۔ تم ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ لیکن یاد رکھو! پھر اپنے علاقے میں واپس نہیں آنا۔ حقیقی توبہ یہی ہے کہ پھر پرانے رابطے جو گناہ کا ذریعہ بنتے رہے ہیں وہ سب ختم کرنے ہوں گے۔ حقیقی توبہ یہی ہے کہ پھر اس علاقے میں واپس نہیں آنا۔ چنانچہ وہ اس طرف چل پڑا۔ ابھی آدھا راستہ طے کیا تھا کہ موت آ گئی۔ جب مر گیا تو رحمت اور عذاب کے فرشتے پہنچ گئے اور آپس میں جھگڑنے لگے کہ اسے ہم نے اپنے ساتھ لے جانا ہے۔ [continued in comments]

#WordsOfKhalifa #istighfar #ahmadiyya

Комментарии

Информация по комментариям в разработке